30-Aug-2022 لیکھنی کی کہانی - ہفتہ وار مقابلہ (نامحرم کی محبت)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نامحرم کی محبت سے رب کی محبت تک کا سفر
از قلم : سمیہ عامر خان
سنہرا غروب ہوتا سورج بس کچھ لمحوں میں غروب ہی ہوا تھا لیکن یہ غروب ہوتا سورج پارس کی زندگی کا طلوع ہوتا سورج تھا۔ وہ شام اس کی زندگی کی بڑی یادگار شام تھی، کیوں کہ اس دن اس کی خوشیوں کا سورج اس غروب ہوتے سورج کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ہر شام کی طرح اس سنہری شام بھی پارس بالکونی میں کھڑی چاۓ پی رہی تھی۔ موسم سہانا تھا۔سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی۔۔۔اتنے میں اسے فائزہ کی کال آتی ہے۔
پارس اور فائزہ یہ رشتے میں تو چچازاد بہنیں تھیں لیکن دونوں میں اس قدر بہناپا تھا مانو جیسے سگی بہنیں ہو۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں کی شکلیں بھی قدریں ملتی جلتی تھیں۔
کال ریسیو کرتے ہی سامنے سے فائزہ گویا ہوئی ۔۔۔۔"بھئ دل کی عمیق گہرائیوں سے اس نا چیز کی مبارکباد قبول ہو، پارس تم نے اسکالرشپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہو پارس تم واقعی میں پارس ہو۔۔۔۔ " پارس اس خوشی سے پھولے نہ سمائی اور اس کی چاۓ پیالی سے چھلک پڑی۔صرف پارس ہی نہیں گھر کا ہر فرد بے انتہا خوش تھا۔واقعی میں یہ رواں دواں شام کا موسم پارس کی خوشیوں کا طلوع سورج تھا کیوں کہ اس اسکالرشپ سے اسے انگلینڈ کی مشہور یونیورسٹی آکسفورڈ یونیورسٹی(Oxford University )میں داخلہ ملنے والا تھا۔۔۔ پارس کالج کی وہ واحد Student تھی جسے اتنی مشہور یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا ۔۔۔
پارس ایک خاموش طبیعت ،ذہین لڑکی ، حجاب پسند ،فرمانبردار ، اچھائی، خداترس،علم پسند اور خوش اخلاقی جیسی خوبیوںکی حامل تھی۔حجاب کی اس قدر پابند مانو جیسے 'سیپی میں موتی'، فرمانبردار اس قدر مانو جیسے 'پرندہ' جو رب کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا اسی طرح پارس بھی والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت پر لبیک کہتی... اس کی دوستی 'پھول کے خوشبو' جیسی،جس طرح پھول خوشبو کے بغیر بے جان ہوتے ہے اسی طرح اس کے دوست اس کے بغیر بے جان ، مانو اس کی دوستی 'نمک' جیسی، جیسے کھانا بنا نمک کے بے ذائقہ ہوتا ہںے ۔۔۔۔ ایسی ہی تھی اس کی بھی دوستی کہیں اس کی کمی سے خوشبو کم تو کہیں نمکینیت ۔۔۔۔ وہ مانو 'پارس' جیسی ہی تھی جو کسی بھی چیز کو سونا بنادیتی تھی۔پارس پارسائی میں ایسی مانو جیسے 'فرشتہ' ہو ، متانت ،سنجیدگی اور رب کی صابر اور شاکر بندی۔
پارس نے فائزہ کی کال بند ہی کی تھی کہ پیچھے سے فہمیدہ کی آواز آئی " پارس بیٹی سنو نیچے تمہاری بڑی امی تمہیں مبارکباد دینے آئی ہیں تم نیچے آجاؤ۔" اتنا جملہ کہ کر وہ پلٹ گئ۔بڑی جلدی میں تھی اماں۔پارس کا 'جی' تک نہیں سنا۔وہ بھی اماں کے پیچھے اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے نکل پڑی لیکن ڈرائینگ روم کے دہانے پر ہی رک گئ۔جلدی سے لہراتے ڈوپٹے کو سر پر رکھ لیا اور نظریں جھکالیں کیونکہ بڑی اماں اکیلی نہیں آئیں تھی ان کے ساتھ ان کا بیٹا کاشان بھی تھا۔جو پارس سے کچھ سال بڑا ہی تھا۔پارس دوپٹہ سنبھالتی نظریں نیچے جھکا کر متانت اور سنجیدگی سے سیدھی روش چلتی ہوئی بڑی اماں تک پہنچی اور سلام کیا۔
"اسلام علیکم" نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی۔پارس کی آواز پر بڑی اماں نے اسے دیکھا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔ لیکن صوفے پر صرف وہ لوگ نہیں تھے سامنے بیٹھے کاشان نے اس کی نگاہ اٹھانا مشکل کردیا تھا وہ بڑی مشکل سے بڑی اماں سے نظریں ملاتی اور اگر ذرا بھی ادھر ادھر نگاہ ہوتی نظریں اس سے ٹکرا جاتی۔ وہ بہت سنبھل سنبھل کر باتیں کر رہی تھی اور پارس کی اسی عادت و احتیاط نے اسے خاص بنا رکھا تھا۔وہ کبھی کسی غیر مرد سے نظریں نہ ملائیں پارس کی یہ ادا نہ کوئی دکھاوا تھا نہ کسی کا لحاظ۔یہ وہ چیز تھی جو ہر لڑکی میں ہونی چاہیئے۔اور پارس میں وہ تھی۔
"وعلیکم اسلام ،مبارک ہو بیٹی،دل کی گہرائیوں سے مبارک باد" بڑی اماں نے اسے بیٹھتے ہی گلے لگالیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
"بہت بہت مبارک باد پارس آپ کو،آپ نے تو ہمارے خاندان کا نام اونچا کردیا، جو آج تک لڑکوں نے نہیں کر دکھایا آپ نے کردیا، ماشااللہ۔" کاشان نے بھی ساتھ ساتھ مبارک باد دی۔
"جی شکریہ" نظریں اب بھی نہ اٹھیں۔
"ماشااللہ بڑی ہونہار ہے ہماری پارس انگلینڈ کی اسکالرشپ حاصل کرلی"بڑی اماں پھر شروع ہوگئیں۔کچھ دیر میں فہمیدہ کھانے کی چیزیں اور دیگر مشروبات لے آئیں۔
"ہے نا فہمیدہ !! ہماری پارس کا کوئی جواب نہیں۔" ٹرے میں پڑی چپس اٹھاتے ہوۓ کہا۔
"کب جانا ہںے بیٹی تم نے انگلینڈ؟" بڑی اماں نے دوسری پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوۓ پوچھا۔
"تین ہفتے بعد۔" جواب ملا۔
"اچھا تیاری مکمل ہوگئ؟"اب کی بار سوال کاشان کا تھا۔"کچھ مدد کی ضرورت ہو تو بے جھجھک بتا دینا میں سارے انتظامات کرادوں گا۔"
"جی نہیں شکریہ بس تیاری مکمل ہی ہوگئی ہے۔"جھکی ہوئی نظروں سے پارس نے کہا۔
پھر کچھ دیر سفر کی تفصیلات پوچھ کر اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرکے بڑی اماں اور کاشان رخصت ہوگۓ۔
پارس بھی اپنے کمرے میں آگئ کھڑکی میں دیکھا مغرب ڈھل رہی تھی۔دور کہیں سے اذان کی آواز سنائی دی پارس جلدی سے نماز کی تیاری کرنے لگی بعد از نماز قرآن کی تلاوت اور ذکر واذکار میں مشغول ہو گئ۔ ان مشغولیات سے جیسے ہی پارس فارغ ہوئی لیپ ٹاپ پر یونیورسٹی کے متعلق معلومات دیکھنے لگی۔۔۔ نماز اور قرآن پارس کی زندگی کی ایسی اہم ترجیحات تھی جنہیں وہ ہر چیز پر اولیت دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا جس کا وہ خود بھی حساب نہیں لگاسکتی تھی اور نہ کبھی کوشش کی تھی۔ لیکن ہاں ! رب کی ان عطا کی گئ نعمتوں پر شکر ادا کرتی رہتی۔
اگلے دن اسے ائیر ایجنسی جاکر سفر سے متعلق ساری معلومات جاننی تھی۔اگلی صبح پارس اسکے ابو کے ساتھ ائیر ایجنسی چلنے کے لئے تیار تھی۔جب وہ ائیر ایجنسی پہنچے تب تقریباً آٹھ بجے ہونگے۔وہ لوگ جس کام سے آۓ تھے وہ آفیسر وہاں موجود نہ تھا انھیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ پارس اور اسکے والد صاحب دونوں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ گۓ اور آفیسر سے ملاقات کا وقت نو بجے کا تھا۔پارس اپنی عادت کے مطابق جلدی پہنچ گئی تھی۔اطراف میں سبھی لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔مختلف لوگ مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے تھے۔پارس کے والد اپنے اطراف کا جائزہ لیں رہے تھے۔لڑکیوں کے لباس اور ان کی باتیں انہیں نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھی۔دنیا کی رنگینیوں میں کھوۓ ہوۓ لوگوں کو دیکھ کر ان کی پیشانی شکن آلود ہوگئ اور انہیں ایک نئ فکر ستانے لگی یہ کہ اب تک پارس ان کی نظروں کے سامنے تھیں، کبھی کسی غلطی یا گنجائش پیدا ہی نہیں ہوئی لیکن اب وہ جہاں جانے والی تھی،جہاں رہ کر اسے آگے بڑھنا تھا وہ دنیا پارس کی اس سادہ دنیا سے بہت الگ تھی۔
اس قدر تیز رفتار زندگی تھی مانو جیسے تیٖر سے نکلا کمان ہو،کسی کے پاس کسی کے لئے بھی وقت نہیں ہوگا،گرنا بھی خود ہوگا اور سنبھلنا بھی خود ہوگا۔"یا اللہ میری بچی کی حفاظت فرما۔"انہوں نے پارس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔وہ ساری دنیا کی سوچو سے بےخبر،اپنے بابا کی فکروں سے بے خبر موبائل میں کچھ دیکھ رہی تھیں۔کچھ دیر بعد انہیں بلایا گیا۔جب وہ اپنا کام مکمل کرکے گھر لوٹے تو تقریباً ایک بج رہا تھا۔گھر میں داخل ہوتے ہی اماں اس کے پاس آئی اور پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑاتے ہوۓ کہا" بیٹا پارس شام کو تیار رہنا ہم شاپنگ پر جایئنگے۔" اماں آج میں بہت تھک چکی ہو کل چلتے ہیں نا۔"پارس صوفے پر ڈھیر ہوگئ۔"صرف کچھ ہی دن باقی ہے بیٹا اور تیاری کچھ نہیں ہوئی۔"اماں فکرمند سی صوفے کے ایک جانب ٹک گئ۔پارس کے والد ان کی گفتگو کے دوران کب نامحسوس طریقے سے وہاں سے ہٹ گئے انہیں پتا نہ چلا۔
ہر گزرتے دنوں کے ساتھ پارس کے والد کی فکر بڑھتی جاتی۔دن ورق کے مانند پلٹتے جارہے تھے۔روز کسی نہ کسی چیز کی خریدی کرنے کے لئے اماں اور پارس بازار جاتیں،روز کوئی نہ کوئی سہیلی اس سے ملنے آتی اسے مبارک باد اور تحفہ تحائف دیتی،اس کی زندگی پر رشک کرتی۔پارس کی اماں کی تو خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جوتے، ڈریس، گھڑی، عبایا غرض ہاتھ کی گھڑی سے لے کر جوتوں تک سب کچھ دو جوڑیوں میں دیا تھااور اماں اسے روز تاکید کرتی رہتی کب ،کون سی چیز کیسے پہننا ہےاور پارس بس سر ہلاکر اماں کی باتوں کا جواب دیتی پھر مسکرا دیتی۔
یوں ہی دن گزرتے گئے اور آخر کار وہ شام آہی گئ جس کی صبح کے بعد پارس نے ہندوستان کو خیرباد کہنا تھا۔
شام کا نیلگوں آسمان پھیل رہا تھا۔پارس اپنے کمرے میں کل کی تیاری کررہی تھیی۔دستک پر اس نے سر اٹھایا،دروازے پر اس کے والد کھڑے تھے،کمزور سے لگ رہے تھے۔
"ساری تیاری مکمل ہوگئ بیٹا؟" اس کے والد نے پوچھا۔
"جی ابا جان بس وہی چیک کر رہی ہوں کہ کوئی اہم چیز رہ نہ جائے."پارس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
بیٹی جس طرح تم نے یہ چیک کرلیا کہ کہیں اہم سامان نہ رہ جائے اسی طرح اپنے دل کے خانوں میں چیک کرلو کہ تمہارا ایمان مضبوط ہے نا۔۔۔ کہیں یہ دوسرے ملک جاکر بہک نہ جائے۔اس میں وہ روشنی جو ﷲ نے تمہیں دی ہے بیٹی کبھی اسے ماند نہ پڑنے دینا، اس روشنی کو کبھی مدھم نہیں پڑنے دینا۔ بیٹی تم چاہے کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہوجاؤ اور جہاں چاہو وہاں کیوں نہ چلی جاؤ غرض تم کتنی ہی بلندیوں کو چھولوں اس روشنی کو کبھی مدھم نہ ہونے دینا ،کبھی اسے اپنے سے جدا نہ کرنا اور کبھی اس پر غرور نہ کرنا چاہے کتنی ہی اونچی اڑان کیوں نہ بھرلو یہ مت بھولنا کہ تم نے اترنا زمین پر ہی ہے۔ بس بیٹا یہی کہنے آیا تھا اپنا خیال رکھنا۔"نم آنکھوں سے اس کے سر پر بوسہ دیا اور چلے گئے، پارس کی بھی آنکھیں نم ہوگئ۔
جس وقت اس نے انگلینڈ کی سرزمین پہ قدم رکھا۔شام ڈھل رہی تھی۔اسکالرشیپ کے ساتھ ساتھ اسے Accomodation کی بھی سہولیات حاصل تھی۔جو ہاسٹل اسے بتایا گیا تھا اسے وہی جانا تھا۔اس کے ساتھ ہندوستان کے دوسرے شہروں سے آئی ہوئی اور بھی لڑکیاں تھیں۔نیاملک،نیاشہر،نئےراستے،نیاموسم اور ساتھ ہی ساتھ نئے جذبات۔پارس کو آج اپنا وجود بھی نیا لگ رہا تھا۔انگلینڈ کو دیکھ کر اسے ایسا لگا جیسے وہ ایک نئی دنیا میں آگئ ہو،نئی دنیا میں اس نے جنم لیا ہو۔ائیرپورٹ پر معمول کے مطابق بھیڑ تھی۔
دسمبر کا موسم تھا۔ہوا میں خنکی تھی۔اس کے پورے وجود میں سردی مانو کرنٹ جیسے دوڑنے لگی جلدی سے پارس نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا کوٹ پہن لیا۔اس کا ہوسٹل یونیورسٹی سے آگے تھا۔ہاسٹل کے راستے میں یونیورسٹی کو دیکھتے ہی پارس کا دل مچل اٹھا۔لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور اس کا وقت کل تھا۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔کل کس نے دیکھا ہے؟کل کا کسے پتا تھا؟کیوں کی کل انسان کا ہوتا ہی نہیں ہے۔کل تو صرف ایک دھوکا ہوتا ہے۔۔۔ کیا پارس کو بھی اس دھوکے کا سامنا کرنا تھا؟
اس کے ہاسٹل کا کمرہ بہت نفیس اور صاف ستھرا تھا ایک کمرے میں دو لڑکیاں رہتی تھیں۔
پارس کے ساتھ کوئی دوسرے ملک کی لڑکی آن ٹھہری۔کمرے کی کھڑکی سے ہاسٹل کا لان دکھائی دے رہا تھا۔ہر طرف سبزہ تھا۔فلائٹ کی وجہ سے پارس تھک چکی تھی اس نے شاور لیا پھر عشاء کی نماز ادا کیں اور رب کا شکر ادا کیا پھر کھانا کھا کر سونے لگی۔لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی کیونکہ پارس کی آنکھیں کل کے سپنے دیکھ رہی تھی۔
اگلے صبح فجر کی نماز ادا کیں اور پھر بڑے ہی پر جوش انداز میں تیار ہوئی۔اس کے ساتھ اس کی روم میٹ ملیحہ بھی تیار ہوئی اور دونوں ساتھ ہی یونیورسٹی کے لئے نکلے۔جیسے جیسے قدم یونیورسٹی کے قریب ہوتے ڈوبتا ابھرتا ایک جوش تھا اس کے دل میں یونیورسٹی پہنچتے ہی ملیحہ اور پارس نے اپنی کلاس ڈھونڈی اور پھر کلاس اٹینڈ کیں۔دونوں کے سبجیکٹس(subjects) الگ تھے۔کلاس شروع ہوئی۔پروفیسر نے اپنا تعارف کروایا اور طلبہ کا ویلکم کیا۔لیکن کلاس شروع ہونے کے بعد بھی کچھ اسٹوڈنس آرہے تھے۔
کلاس تقریباً فل ہوچکا تھا۔تبھی ایک اسٹوڈنٹ آیا۔پوری کلاس چونکہ فل ہوچکی تھی پارس بینچ پر اکیلے تھی کیونکہ اس نے حجاب لے رکھا تھا اس لئے اس سے ابھی کوئی فری نہیں ہوا تھا پارس کلاس میں واحد لڑکی تھی جو حجاب کرتی تھیں۔ آنے والا اسٹوڈنٹ لڑکا تھا۔جس کا نام آزر تھا ۔دیکھنے میں خوب رو نوجوان تھا۔اسے پارس کے بینچ پر جگہ خالی نظر آئی تو آزر آتے ہی وہی پارس کے پاس بیٹھ گیا۔ پارس اس سچویشن کے لئے تیار نہ تھی۔جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن پروفیسر نے اسے "sit down" کہا۔اسے نہ چاہتے ہوۓ بھی آزر کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ کلاس کے دوران وہ بہت uncomfortable تھی اور اس کا موڈ بھی آف ہی رہا۔
لیکن یہ صرف آج کی بات نہیں تھی۔وہ ہر روز پارس کے پاس بیٹھتا۔دھیرے دھیرے دونوں میں بات چیت شروع ہوئی۔وہ پارس سے نوٹس(Notes) اور دیگر لوازمات لیتا۔ کبھی Canteen میں بریک یا لنچ کے لئے آجاتا۔ گو کہ وہ ہر دفعہ پارس کے ہی اطراف رہتا۔دھیرے دھیرے پارس کے اطراف کا خول بھی ٹوٹتا گیا۔اور وہ بھی آزر کے ساتھ فری ہوگئ۔اور یہی سے پارس کا "کل" شروع ہوا۔
اس خوب رو نوجوان کی دوستی سے سب کچھ روشن ہی تھا وہ شام ، وہ لمحہ ، ہاں کہیں نہ کہیں تو اندھیرا چھا گیا تھا ، واقعی میں پارس کی زندگی ، اس کے ضمیر ، اس کی حیا، مانو اس کے پورے وجود پر گھپ اندھیری چادر چھا گئی تھی۔ اس کی اس دوستی نے اسے اس طرح رنگ ڈالا کہ وہ اپنے خاص رنگ 'رب کی محبت کا رنگ' بھول چکی تھی وہ رنگ جو نماز ذکر واذکار اور تلاوت قرآن سے کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ پارس اپنی ان ترجیحات کو بھول چکی تھی جنہیں وہ ہر کام میں اولیت دیتی تھی رب کے ذکر واذکار کے بجائے سیروتفریح اور نغموں میں کھو گئی وہ اپنوں کو بھول چکی تھی۔ یہ دوستی پارس کے لئے آزمائش تھی کاش وہ اس آزمائش کو پہچان لیتی ۔۔۔پارس کے تو اس خواب نگری میں ابھی قدم جمے ہی نہ تھے کہ پارس اس خواب نگری اور یہاں کے دلکش رنگ میں اس قدر کھو گئ کہ وہ اپنی حیا و پاسداری کا لحاف پھینک چکی تھی۔۔۔
یہ دوستی اس قدر پھلنے پھولنے لگی کہ اب پارس اور اس خوب رو نوجوان دونوں کا وقت کالج کے علاوہ شامیں بھی canteen اور شاپنگ میں گزرنے لگی۔پارس جو کبھی اپنے تایا زاد بھائی کاشان کے سامنے تک نہ آتی،جو کاشان سے نظریں نہ ملاتی آج وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ تھی جسے اسے مل کر کچھ لمحہ ہی ہوا تھا اور اس اجنبی کے ساتھ وہ اتنی فری ہوگئ مانو جیسے اس سے برسوں سے جانتی ہو۔۔۔
لیکن یہ دوستی کیا واقعی میں دوستی تھی؟؟؟ یا فریب تھا،دھوکہ تھا۔۔۔ وہ خوب رو نوجوان تو پارس کے یقین تک رسائی حاصل کرچکا تھا۔وہ پارس کا مکمل یقین جیت چکا ہوتا ہے۔اس لئے کئی بار پارس کی رومیٹ ملیحہ بھی پارس کو اس دوستی کا انجام سمجھانے سے قاصر ہوجاتی۔ملیحہ کو ہمیشہ سے پارس کا دوست آزر برا ہی لگتا تھا وہ پارس سے ہر وقت کہتی کہ دیکھو پارس یہ ایسا نہیں ہے جیسا وہ تمہارے سامنے خود کو پیش کرتا ہے لیکن پارس یہ سب کچھ سمجھنے سے قاصر تھیں اس پر دنیاوی محبت کا رنگ چھڑ گیا تھا جہاں اسے اپنی خودی اور اپنے پاکیزہ ضمیر تک کو اس دنیاوی محبت کے بھینٹ چڑھا چکی تھی۔۔۔۔
ملیحہ کی اکثر عادت تھی شام کے وقت گارڈن میں چکر لگانے کی اس شام بھی ملیحہ گارڈن کی سیر میں مصروف تھی کہ اچانک اسے آزر نظر آیا جو اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر پارس کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے ملیحہ چونکہ ہمیشہ سے اسے برا ہی جانتی تھی آج دیکھ بھی لی تھی۔۔۔ ملیحہ آج ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہوئی جسے سن کر اسکے پیر سے زمین اور سر سے آسمان ہٹ چکا تھا ۔۔۔
"یار آزر تم نے تو شرط جیت لی اس حجابی اور پارسا لڑکی سے ایسی دوستی کرچکے ہو کہ وہ اپنا سب کچھ تمہیں ہی مان چکی ہے، وہ تو تمہارے لئے اپنا حجاب اور اصولوں کا سودا کرچکی ہے۔" تابش نے آزر کو تالی مارتے ہوۓ کہا اور زور سے قہقہے لگانے لگا ۔۔۔۔
"شرط کیسی شرط یار ؟کس خوشی کا تم دونوں اکیلے جشن منارہے ہو ذرا ہمیں بھی تو بتاو یارا؟؟؟" پیچھے سے آزر کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوۓ عاطف نے سوال کیا۔
"ارے کچھ نہیں عاطف بس وہ اپنی حجابی میڈم پارس ہے نہ اسی کا بس ہم نے آزر سے شرط لگاۓ تھے کہ پارس سے دوستی کر دِکھاۓ۔ بڑی پارسائی اور اصولوں کا شور مچا رکھا تھا محترمہ نے آزر نے ایسا جادو چلایا کہ پارس اپنی پارسائی، خودی، ضمیر سب کچھ آزر کے نام کرچکی ہے۔" تابش اور آزر نے قہقہے لگاتے ہوۓ کہا۔
یہ سب کچھ ملیحہ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اور وہاں سے چلنے ہی لگی تھی کہ پیچھے پارس کانپتی ہوئی، آنکھوں میں آنسوؤں سے بھری ہوئی، مانو اس کی حالت ایسی تھی کہ بس اس کا دم نکل رہا ہو۔وہ ایسی ساکت کھڑی تھی جیسے زندہ لاش ہو اور شرمندگی سے زمین میں دھنستی جارہی ہو۔"ملیحہ تم صحیح تھی ۔۔۔ کیوں میں یہ نہ سمجھ پائی، ملیحہ please مجھے اس اندھیرے سے نکالو مجھے بتاو میں کیا کروں ؟؟؟ کیسے اپنی پارسائی اور خودی کو روشن کرو؟؟؟"پارس ہچکیوں سے روتے ہوئے کہتی ہے۔
"پارس سنو تم رونا بند کرو اور ڈٹ کر بس آزمائش کا مقابلہ کرو، پارس ہمت مت ہارو تم تو بہت مضبوط لڑکی ہو۔" ملیحہ اسکی ڈھارس باندھتے ہوۓ کہتی ہے۔
پارس تو جیسے کہیں کھو گئ تھی اسے اپنے اماں ابا کی نصیحتیں یاد آتی ہے۔ملیحہ اسے روم میں لے جاتی ہے۔
دوسرے دن کلاس میں سب کچھ اپنی جگہ رواں دواں تھا بس رک تو پارس گئ تھیں، لیکن جیسے ہی آزر ہمیشہ کی طرح پارس کے ساتھ والی سِٹ(Bench) پر بیٹھ گیا لیکن آج پارس اس بینچ سے اٹھ چکی تھی۔
میڈم اسے کہتی ہے۔۔۔ "بیٹھ جاؤ پارس۔"
"نہیں آج طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی میڈم میں چلتی ہوں۔" وہ جلدی سے بولی اور کلاس سے چل دی۔
یہ پہلی دفعہ تھا جب اس نے آزر کو اگنور کیا تھا۔آزر سے رہا نہ گیا اور کلاس ختم ہوتے ہی canteen میں پارس سے ملتا ہے۔
یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے پارس جہاں میں آتا ہوں وہاں سے تم جانا چاہتی ہو ورنہ تو ہمیشہ ساتھ رہتی تھی۔"آزر نے پارس کا ہاتھ پکڑتے ہوےَ کہا۔
"غلطی تھی میری میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی جو میرا مقدر نہیں تھا۔۔۔" اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوۓ کہا۔
"آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا،میری ایگو(ego)کو ہرٹ کیا،مجھے بےعزت کیا۔"اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
"کب؟"وہ گویا تمہید باندھ رہا تھا۔
جب آپ نے میرے ساتھ یوں ہی ایک شرط کو جیتنے کے لئے دوستی کا ڈھونگ رچا، دوستوں کے سامنے میرا مذاق اڑایا ، میں تو آپ کے لئے محض ایک شرط تھی۔۔۔"۔۔۔"آزر کیا کسی کی عزت نفس مجروح کرنااور دل دکھانا بری بات نہیں ہے؟" پارس نے بے حد خفگی سے دیکھتے ہوۓ کہا۔
"مس پارس تم میرے ہی عمل کو غلط کیوں کہتی ہو؟ کیا ساری لڑکیاں اتنی بے وقوفی ہوتی ہے کہ کسی لڑکے سے کوئی تعلق نہ ہونے پر محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں؟ کیا لڑکیاں اتنی کم عقل ہوتی ہیں کہ لڑکوں کے nature کو نہیں سمجھ پاتی؟ لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنا تو لڑکوں کی Hobby ہوتی ہے۔پھر لڑکیاں کیوں جذباتی ہوجاتی ہیں؟کیوں لڑکوں سے امیدیں لگا بیٹھتی ہیں؟ کیوں یہ سمجھتی ہے کہ لڑکے ان کی طرح کم عقل ہوتی ہیں؟
مگر ایمانداری سے بتاوں میں نے تم سے کبھی فلرٹ کیا؟ میں نے صرف تم سے دوستی کی تھی مس پارس۔"
یونیورسٹی امتحان کے دن قریب ہوتے ہے ہر کوئی امتحان میں مصروف ہوجاتے ہیں، پارس کھوئی کھوئی سی کلاس اور امتحان میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔۔۔exam sessions مکمل ہوتے ہی سب اپنے وطن ،اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
پارس۔۔۔ اوہ واووووو تم آگئ مجھے یقین ہی نہیں ہورہا کہ تم آچکی ہو ۔۔۔ ویسے پارس تم نے کل ہی تو کال کی تھی بتایا نہیں مجھے کہ تم آرہی ہو ۔۔؟" اس نے پارس کے کمرے میں قدم رکھتے ہی اس سے پوچھا تھا۔۔۔
ہمممممم۔۔۔۔۔ پارس نے تھکے ہوۓ انداز میں کہا۔
"چلو کوئی نہیں پارس تم سے شام میں ملاقات ہوتی ہے ابھی شمیلہ کے ساتھ مارکیٹ جارہی ہو ۔۔۔ تم بھی آرام کرو" فائزہ نے پارس کے بوجھل اور تھکے ہوۓ پن کو محسوس کرتے ہوۓ کہا اور وہاں سے چل دی۔۔۔
شمیلہ یہ فائزہ کی کالج فرینڈ تھی جو اکثروبیشتر فائزہ کے ساتھ مارکیٹ جاتی تھی ۔
پارس ہمیشہ کی طرح بالکونی میں کھڑے غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہی تھی کہ اسی لمحہ اسے انگلینڈ کا اس شام کا غروب ہوتا لمحہ یاد آگیا جس نے اسے "محبت کے حقیقی پھول" سے اسکی زندگی کو دوبارہ طلوع کیا تھا،جس نے پارس کو احساس دلایا کہ اس دنیا میں کوئی غروب آخری نہیں ہوتا ہر غروب کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔۔۔
اتنے میں فائزہ چاۓ کی ٹرے لئے پارس کے کمرے میں آتی ہے اور دونوں بالکونی میں کھڑے غروب ہوتے سورج کے ساتھ چاۓ کا مزہ لیتے ہیں۔
"پارس چلو بھئی اب اپنی تھکاوٹ سے باہر بھی آؤ اور ہمیں بھی تو انگلینڈ کے بارے میں کچھ بتاؤ ، تمہاری یونیورسٹی کے متعلق بتاؤ، تم نے انگلینڈ میں کیا کیا دیکھا؟ وہاں کے دوستوں کے بارے میں بتاؤ۔"
پارس جیسے کہیں گم سم سی تھی اس کے ہر جواب پر 'اچھا' اور 'ہاں' کہے جاتی۔
پارس سنو...! "تم اتنی خاموش اور گم سم سی کہاں کھوئی ہوئی ہو؟؟؟ فائزہ نے پارس کی ٹھنڈی ہوتی چاۓ پر پوچھا."
"نہیں فائزہ کچھ نہیں بس سفر کی تھکان ہے"پارس نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کہا۔
"اچھا پارس تم نے میری دوری سے کیا سیکھا؟" فائزہ نے پارس کے موڈ کو ٹھیک کرنے کے لئے ہنستے ہوۓ کہا۔
"اممممم۔۔۔ بہت کچھ۔۔۔۔پارس نے سنجیدگی اور پر سوچ انداز میں کہا۔
"ارے میری پارس آپا میں تو بس یوں ہی آپ سے مذاق سے کہا کہ میری دوری کیسی لگی،آپ سنجیدہ نہ ہوجائے " فائزہ نے ہنستے ہوۓ کہا.
"نہیں جی فائزہ آپا ہم نے آپ کو سچ میں بہت یاد کیا " پارس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"چلو بھئی آپ مسکرائی تو سہی، ورنہ مجھے تو لگا تھا آپ محترمہ نے شاید ہنسی انگلینڈ میں چھوڑ آئی ہو.اچھا بتاؤ پھر کیسی لگی ہماری دوری۔۔۔" دوبارہ فائزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
جیسے کہ اس جہاں میں تم سے اچھی سچی دوست کہیں نہیں ملے گی. پارس نے گہرا سانس لیتے ہوۓ کہا ۔
"جانتی ہو یہ جو دنیا کی زندگی ہے نا یہ محض دھوکا و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہںےفائزہ۔"
"جانتی ہو فائزے یہ لڑکیاں موتیوں اور ہیروں جیسی ہوتی ہے۔۔۔ یہ موتیوں کی لڑیاں ایک بار بکھر جاۓ تو انہیں کتنا بھی پہلے جیسا خوبصورتی اور شادابی سے پرویا جاۓ۔۔۔۔ نہیں پرو سکتے کیونکہ یہ پوری طرح سے ٹوٹ اور بکھر چکی ہوتی ہے۔۔۔ ٹھیک اسی طرح جب کوئی لڑکی اپنا ضمیر ، اپنی خودی ، کھوچکے تو وہ اپنے آپ کو دوبارہ نہیں جوڑسکتی۔ لڑکیوں کی خودی ، ان کا ضمیر ہی ان کی 'لڑی' ان کی موتیوں کی مالا ہوتا ہے۔۔۔۔ جب یہ مالا اور لڑی ناسمجھی ،نادانی اور خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جاۓ تو وہ لڑکی ہیرا اور موتیوں کی لڑیوں جیسی نازک ، متانت ، صبر و تحمل والی نہیں رہ پاتی ۔
فائزے وہاں میں نے خودی اور ضمیر کی اہمیت کو سمجھا وہاں میں نے فانی اور لافانی محبت ، محبت کے حقیقی پھول کو پہچانا ۔۔۔۔پارس نے ایک پر سکون سانس لیتے ہوئے کہا."
"اوہہہہہہہ ۔۔۔۔ہماری پارس تو انگلینڈ جاکر بڑی فلسفی ہوگئ۔"فائزہ نے ہلکی سی مسکراہٹ اور تجسس سے کہا۔"
"جانتی ہو فائزہ یہ جو اس جہاں میں دو محبت کرنے والے لوگ ہوتے ہے نہ وہ فانی محبت کرتے ہے ۔۔۔۔" گہری سانس بھرتے ہوۓ پارس نے کہا۔
"پوچھو نا کیوں۔۔؟".... پارس نے فائزہ سے کہا۔۔
"کیوں"؟ فائزہ نے تجسس سے پوچھا۔۔۔۔
"کیوں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو گلاب کا پھول دیتے ہے اپنی محبت کی شہادت کے لئے ..." پارس نے پر سوچ انداز میں کہا۔
"کیوں بھئی تم ایسا کیوں کہتی ہو ؟ گلاب کا پھول تو محبت کی نشانی ہوتا رہا ہے صدیوں سے"۔۔۔ فائزہ نے پارس کو ٹوکتے ہوۓ کہا۔
پارس "ہاں!!۔۔۔۔ پر یہ فانی محبت کی نشانی ہے ۔۔۔ کیوں کے وہ لوگ جانتے ہے کہ اس محبت میں انھیں ناکامی ملے گی وہ اسی لئے تو کانٹے والے پھول کا انتخاب کرتے ہے وہ پہلے مرہم دیتےہںے پھر زخم لیتے ہے."
"تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟ فانی محبت۔۔۔کیا ہے یہ ؟!" فائزہ نے پر تجسس انداز میں پوچھا۔
پارس "ہاں فائزہ فانی محبت ۔۔۔۔ جسمیں پہلے تو بہار کا موسم ہوتا ہے اور پھر خزاں کا موسم ، جسمیں پہلے پھول ہوتے ہے پھر کانٹے ہی کانٹے ، روشنی اور پھر اندھیرا ، اور زخم ہی زخم ہوتے ہے ۔۔۔۔۔
اسکے برعکس لا فانی محبت بہت ہی اچھی ہوتی ہے فائزہ"....
لافانی محبت !!!!؟ وہ کیا اور کیسی ہوتی ہے پارس؟؟؟؟؟ فائزہ نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں فائزے ۔۔۔۔ لافانی محبت جو اس جہاں اور اس جہاں دونوں کو سنوارتی ہے ، جسمیں روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، جسمیں بہار کا ہی موسم ہوتا ہے ، جسمیں زخم نہیں ہوتے ، جو خالص اپنے رب کی رضا پر مبنی ہوتی ہے۔اور جانتی ہو فائزہ اس محبت کی نشانی کیا ہوتی ہے؟" پارس نے فائزہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔
فائزہ "نہیں ۔ بتاؤ نا تم ؟"
"نصیحتوں کے پھول ، تاکہ کبھی اس محبت میں زخم یا اداسی ملیں تو نصیحتوں کا مرہم لگالیا جائے تاکہ غم اور اداسیاں طویل نہ ہو ۔
اور اس محبت میں ایک دوسرے کے لیے دعاؤں میں جنت کا ابدی ساتھ مانگا جاتا ہے ۔۔۔۔ یہ محبت جسے مل جائے وہ سچ میں بہت خوش نصیب ہوتا ہے ، رب کے قریب ہوتا ہے ، اور اپنے ہمسفر کا وفادار ، سچا اور خالص اپنے ہمسفر کا مسافر ہوتا ہے ، اسکی دنیا بھی جنت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔"
"فائزہ ۔۔۔۔ یہ دو لافانی محبت کرنے والے جانتی ہو ایک دوسرے کو کونسا پھول دیتے ہے ...."
"کونسا ؟" فائزہ نے
"نصیحتوں اور دعاؤں کا پھول تاکہ ایک دوسرے کی دنیا اور آخرت کو سنوارے اور کامیاب بنائے۔"
"فائزہ جب تم کبھی محبت کرو نا تا تو لافانی محبت اور خالص محبت کرنا اپنے رب کی رضا کی خاطر کرنا محبت تو رب اس محبت کو لا فانی محبت بنادے گا اور تمہارا اور تمہارے ہمسفر کا ساتھ ابدی ہوگا ہمیشہ کا ساتھ ختم نہ ہونے والا ساتھ ۔۔۔۔۔"
پارس نے فائزہ کا ہاتھ تھامتے ہوۓ گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
Muskan Malik
23-Sep-2022 06:10 PM
بہت زبردست
Reply
Arshi khan
06-Sep-2022 09:40 PM
I love your all posts 🥰🥰
Reply
Maria akram khan
05-Sep-2022 12:35 PM
MASHA ALLAH 💜💖
Reply